
تحریر: افراز رشید
میرے بعد کس کو ستاؤ گے؟
صبح سویرے شدید سرد موسم میں چوکوں چوراہوں پر پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہاتھ میں کدال، رمبی، بیلچا اٹھائے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ کسی ایسے مسیحا کے منتظر جو ان پر صرف اتنا احسان کر دے کہ ان کو اس سرد موسم میں بے شک کھلے آسمان تلے ہی دیھاڑ داری مل جائے تو ان کی زندگی کا پیہ کم ازکم ایک دن کے لئے چل سکے، دوسرے دن کی کوئی خبر نہیں۔ میرے بعد کس کو ستاؤ گے؟
کسی سٹور، مل، فیکٹری یا پھر دفتر میں ملازمت کرنے والا عام سا نوجوان جس کے اخراجات تنخواہ سے کئی گنا زیادہ ہوں اپنی ضروریات کی چکی میں پس رہا ہے۔ ایک عام سا تاجر جو صبح سویرے دکان پر پہنچے اور رات گئے تک ایک جگہ کھڑے ہو کر اپنی روزی روٹی چلا رہا ہے۔ جس معاشرے میں یہ خوش نصیب تصور کئے جاتے ہوں اس لئے کہ ان کے پاس روزگار تو ہے روکھی سوکھی، اچھی یا بری مل تو رہی ہے لیکن اس مقدار سے کئی گنا زیادہ آج کا نوجوان پڑھا لکھا طبقہ جو ان سہولیات سے بھی محروم ہو اس دیس، ملک، معاشرے اور قوم کا کیا مستقبل ہو سکتا ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ اس سے بھی بھیانک ہے کہ پراڈو گاڑی پر سرد موسم میں ہیٹر، گرم موسم میں اے سی میں سفر کرنے والا میرا اور آپ کا قائد، جو جہاں جائے بے شمار قسم کے کھانے، اہتمام، ہوٹر کی آوازیں، پروٹوکول اور ہٹو بچو کے شور۔ جو ماسوائے الیکشن کے مٹی پر بیٹھنا تو دور کی بات ہے مٹی پر پاوں رکھنا پسند نہ کرتا ہو بھلا وہ اس غریب مزدور کا، کسان کا، دکان دار کا، دیھاڑی دار کا درد کیسے محسوس کر سکتا ہے؟
۔
گاڑیوں کے شیشے کالے ہونے کی بھی ایک وجہ ہوتی ہے کہ غریب لوگوں کو دیکھنا نہ پڑے۔ وہ میرے اور آپ کے دکھ کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ “مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تیری رہبری کا سوال ہے
طبقے دو ہی ہیں، قومیں دو ہی ہیں۔ ایک غریب، مزدور، کسان، دیھاڑی دار، سکول ماسٹر، فیکٹری کا ملازم اور دوسرا کالے شیشوں والی گاڑیوں والے، پروٹو کول والے، ہٹو بچو کے شور والے۔
ان ظالموں کا محکوم طبقے سے بھلا کیا تعلق؟ انہیں کیا لینا دینا کہ کس کے پاس کھانے کو کچھ ہے یا نہیں؟ اتنے بڑے تضاد کے ہوتے ہوئے بھی ان حقیقی ظالموں سے محکوم قوم کو امید سمجھ سے باہر ہے؟؟؟ یہ ہوتے کون ہیں عطا کرنے والے۔
پہچانو ان کو، یہ ہمارے ارد گرد قائدین کی صورت میں مہنگے ترین برانڈڈ کپڑوں، لگثری گاڑیوں، عالی شان محلات میں رہنے والے موجود ہیں۔ ان کو بتا دو کہ آپ کو کوئی حق نہیں ہم پر حکمرانی کرنے کا۔ ہمارا قائد کوئی ہم جیسا ہی عام آدمی ہو گا جس کو ہمارے دکھوں کا احساس ہو گا۔