
وقار احمد
حصار شب
مولانا روم کہتے ہیں کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان خلاء ہے. کیا یہ خلاء واقعی ہی وجود رکھتا ہے؟ میں نے جب سے یہ فکر انگیز قول سنا ہے میں اس حقیقت کی تلاش میں سرگرداں ہوا اور آخر کار اس نتیجے پہ پہنچا کہ سچ اور جھوٹ کے درمیان ایک بہت بڑا خلاء ہے. ہمارے لیے حق و باطل کے مابین کو سمجھنے کے لیے قوموں، فرقوں، قبیلوں اور نسلوں کا مطالعہ بہت ضروری ہے.
دنیا میں نسل پرستی قوم پرستی اور قبائلی زندگی اپنا اچھا خاصا وجود رکھتی ہے. فرقہ پرستی سے اگر کوئی واقف نہیں تو وہ آج کے دور میں مسلمانوں کی زندگیوں کا بغور مطالعہ کر لے کثیر تعداد میں فرقہ پرست اور قلیل تعداد میں وہ لوگ نظر آئیں گے جو فرقہ پرستی سے بالا تر ہو کے سوچتے ہوں گے. سچ اور جھوٹ کیا ہیں. اس کا تعین کرنا کٹھن تو ہے مگر ناممکن نہیں. دنیا سچ اور جھوٹ کے ارد گرد گھومتی ہے. مطلق سچ اور مطلق جھوٹ کم و بیش ہی وجود رکھتا ہے. ہر کوئی مفادات، مصلحت اور منافقت کی غرض سے آدھا سچ یا آدھا جھوٹ بولتا ہے. پھر وہ معاشرے میں ایک حقیقت بن جاتی ہے اور یوں اس کو سچ تسلیم کر لیا جاتا ہے یا پھر سراسر جھٹلا دیا جاتا ہے. ہر ایک شئے شر محض یا مکمل خیر نہیں ہوتی بلکہ اسے بنا کے پیش کیا جاتا ہے. اور دنیا ایک ریڈی میڈ سچ یا جھوٹ کے گرد گھومنے لگتی ہے. ہم اپنی دانست میں ایک چیز کو سچ تسلیم کرتے ہیں اور پھر اس کے قریب جاتے ہیں یا جھوٹ سمجھ کر اسے دور جاتے ہیں یعنی عمل کرتے ہیں. اگر ہم خلاء میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں تو عمل سے کیسے کریں گے . جبکہ عمل سے زندگی بنتی ہے اور ہم یہاں زندگی بنانے کے لیے آئے ہیں. تو ایسے میں جہاں ایک شخص خلاء میں موجود ایک سیارے کو سچ کہتا ہے تو دوسرا دوسرے کو حق مان لیتا ہے. ایک سعودیہ کو مقدس اور آخری سچ تسلیم کر لیتا ہے اور دوسرے کے نزدیک ایران اس کے مقابلے میں بڑا سچ ہے. ایک چین کو نجات دہندہ سمجھتا ہے تو دوسرا امریکی تعلقات کو ترجیح دیتا ہے. یوں معاشرے سوشلی کنسٹرکٹد Socially constucted حقائق کو ساتھ لے کر چل رہے ہوتے ہیں. ایک معاشرے میں یہی حقائق دوسرے سے مختلف ہیں. اسی بنیاد پر معاشرے ، فرقے، قومیں، اور قبیلے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں. یعنی ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ خلا میں سیارے حقائق ہیں مگر ان کی پوزیشنز تو حتمی نہیں ہیں. کیونکہ خلاء میں سمتوں کا تعین نہیں ہوتا اسی لیے اسے خلاء کہتے ہیں. چنانچہ یوں ہی معاشرے میں حقائق اپنا وجود رکھتے ہیں چاہے وہ ریڈی میڈ ہی کیوں نہ ہوں مگر ان کو حتمی سچ تسلیم نہیں کیا جا سکتا. انسانی شعور ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا غیر حتمی سچ سے حتمی سچ کی طرف سفر کر رہا ہے. اور حتمی سچ یا حتمی جھوٹ تو معاشرے میں وجود نہیں رکھتا. ایک معاشرے میں جو ہیرو ہوتا ہے دوسرے میں وہ ولن ایک کا جو دہشت گرد دوسرے کا فریڈم فائیٹر یوں یہاں کسی حقیقت کو حتمی طور پہ بیان کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے.
سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد مسلم معاشرہ رزق بقاء کی خاطر سچ اور جھوٹ کے درمیانی خلاء میں ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے. خلافت کے اختتام کے بعد امت مسلمہ کے اکابرین کی صورت میں اجتہاد اس طرح زندہ نہ رہ سکا جس طرح اسے زندہ رہنے کا حق تھا. جس کا خمیازہ بھگتنے کے بعد اسلامی صدارتی نظام ، اسلامی فلاحی ریاست ، آمریت ، ملوکیت یا بادشاہت کے رحم و کرم پہ مسلم معاشرہ کوئی آئیڈیل نظام متعارف نہ کروا سکا. اور نتیجے کے طور پہ آج شام ، یمن اور لیبیا میں معاشرہ تو کیا انسان بقاء کی جنگ ہار رہا ہے. دوسری طرف کشمیر فلسطین اور افغانستان سے عالمی طاقتوں کا تسلط ختم کرانے میں ناکام مسلم ممالک اپنی ہی ریشہ دوانیوں کا شکار ہیں.
مسلم معاشرے میں سب سے زیادہ اعتماد کا فقدان ہے. جس کی وجہ سے ہر ایک قبیلے فرقے اور نسل کا اپنا اپنا پیر و مرشد اور اپنا راستہ ہے. مزید برآں کے طاقت کے پجاریوں نے اس معاشرے کو ہمییشہ دو انتہاوں کے درمیان خلاء میں گم رکھا. اور یوں معاشرہ آہستہ آہستہ اپنی شناخت کھوتا چلا گیا. جہاں گلوبلائزیشن اور ٹیکنالوجی انسانی کلچر تہذیب و ثقافت پہ نظر انداز ہو رہی ہے وہیں اس کا نظریات سے گہرہ تعلق ہے. کرائیسٹ چرچ میں مسلمانوں کا خون بہانے والے نے جو پیغام دیا ہے مسلمان وہ اس لیے بھی بھول گئے کہ ان کے پاس اپنی کوئی مظبوط اور متفقہ آئیڈیالوجی ہی نہیں. مختلف رنگ نسل زبان کلچر کی اکائیوں پہ استوار مسلم تہذیب جامع اور عالم گیر ثقافت کی عکاسی کرتی ہے. اسے معاشرتی حقیقتوں کی موشگافیوں میں الجھا کر مسلم معاشرے کو مزید ابتری کی طرف دھکیلنے کی بجائے ایک مربوط نظریے کی ضرورت ہے. جو مسلم معاشرتی، معاشی، اقتصادی اور علمی اقدار کا امیں ہونے کے ساتھ ساتھ جدیدیت پر مبنی ہو.
مسلمان کسی بڑے نظریے کو متعارف نہ کر پائے اور یوں دوسروں کے نظریات کی تائید کرتے رہے اور ان کے حق میں قرآن و حدیث کی روشنی میں دلائل دیتے رہے. سوچنے کا مقام ہے کہ اگر سوشلزم یعنی اشتراکیت کی دلیل ویلتھ شیئرنگ یعنی زکوات سے دی جا سکتی ہے. کیپٹلزم میں ملکیت کی دلیل دی جا سکتی ہے اور اپنی بساط کے مطابق کمانے کی اجازت کو کیپٹلزم کی دلیل کہا جا سکتا ہے تو پھر ان تمام اکائیوں کو باہم ملا کر ایک مربوط نظام کیوں نہیں پیش کیا جا سکتا. اسلامی سربراہی کونسل بن سکتی ہے تو اسلامی فلاحی کونسل کیوں نہیں بن سکتی جس میں زکوات کو بین الاقوامی طور پہ اینجیوز کے تحط غریب مسلمانوں میں تقسیم کیا جا سکے. خط غربت سے نیچے رہنے والے مسلمانوں کو اندھیرے میں دھکیل کر کب تک ان کی لاشوں پہ کرسیاں رکھی جاتی رہیں گی. انہیں اس دنیا کی نعمتوں سے کب تک محروم رکھا جائے گا.
خلا میں جینے والوں کی کوئی سمت نہیں ہوتی. اور بغیر سمت کے ڈائیمینشن بھی نہیں ہوتی یہ اور جب ڈائیمینشن نہ ہو تو وجود بھی نہیں ہوتا یہ ایک سائنسی حقیقت ہے اور غریب مسلمانوں کی عکاسی کر رہی ہے. ایرانی انقلاب کی خوبیوں سے لے کر سعودیہ میں موجود بادشاہت تک اور پاکستان کی ہچکولے کھاتی جمہوریت سے لے کر ترکی کی صدارت تک سب کا اصل مغز نکال کر اگر اسے اسلامی کی بنیادی کسوٹی پہ پرکھا جائے اور (جس کی اجازت دی جائے وہ لے لو اور جس سے منع کیا جائے وہ چھوڑ دو) کو معیار بنا کر ایک مشترکہ نظریہ دیا جائے اور پھر اس کو نظام کی شکل دے کر تمام مسلمان ملکوں میں لاگو کر دیا جائے. تو ہم خلاء سے یوں نکل آئیں گے جیسے عید کے دن بچے خوشی خوشی گھر سے نکلتے ہیں. تمام علماء مفسرین ماہرین مدبرین مبصرین اور سیاست دانوں کے مل بیٹھنے کا وقت ہے مگر ہر ایک اپنے لیے سامریوں میں موسی تلاش رہا ہے. کسی کے لیے چین تو کسی کے لیے امریکہ کسی کے لیے روس تو کسی کے لیے برطانیہ راہ نجات ہے.
اس سارے خلاء میں جب حقیقتیں تیرتی ہوئی تو ضرور نظر آتی ہیں مگر ان پہ یقین کرنا دشوار ہو جاتا ہے. جھوٹ اور سچ کے درمیان ایک طویل فاصلہ دکھائی دیتا ہے. مگر یہ سارا نظر اور نظریات کی عینک سے نظر آتا ہے. جب انسان عقیدے کی عینک سے دیکھے تو اسے کوئی خلاء نظر نہیں آتا. اسے حقیقت پہ ایمان ہوتا ہے.
سو اس لیے دنیا کو دیکھنے والی آنکھ پہ کوئی نہ کوئی عینک ضرور ہوتی ہے جبکہ اصل حقیقت کو صرف حقیقی آنکھ سے ہی دیکھا جا سکتا ہے اور وہ اندھوں کو بھی نظر آجاتی ہے.
یہ جو خلاء ہے وصل و ہجر کے بیچ
سبھی کو خوف اسی درمیاں سے آتا ہے
ہے ذات ایسی مقفل کہ دم نہیں آتا
تیرا خیال نہ جانے کہاں سے آتا ہے