
سالار گنگال گاؤں میں اپنا باڑا چلاتا ہے جس سے وہ دودھ دھو کر شہر میں اپنے چچا کی دکان میں بھیجتا ہے اور اپنے گھر کا خرچ چلاتا ہے۔ ایک دن اس کی بھینسیں بیمار ہوگئی تو وہ انہیں علاج کیلئے ڈاکٹر کے پاس لے آیا، مختلف ٹیکوں اور دوائیوں کی وجہ سے ڈاکٹر نے دودھ بیچنے سے منع کیا مگر گھر کا چول ابھی تو چلانا تھا۔ دودھ دھو کر اس نے نصف پانی ملا دیا اور شہر میں بھیج دیا۔ اس دن معمول سے زیادہ رقم گھر ای تو اسے بڑی خوشی محسوس ہوئی تو یہ ملاوٹ کا سلسلہ روز شروع ہوگیا۔ اسی دوران شام کو کام سے فراغت حاصل کرنے کے بعد ٹی وی میں چلنے والی سیاسی لڑائیاں دیکھ کر کچھ افسردہ سا ہو گیا۔ صبح بھی اس کے ذہن میں یہی خیالات تھے اور ملاوٹ کرتے کرتے اچانک بولنے لگا کہ کاش ہمارے کرپٹ حکمران ختم ہوں اور ملک میں خوشحالی آئے۔
افسوس کہ ہمارے معاشرے صرف دوسروں پر تنقید کرنا ہیں سکھایا جاتا ہے ہمیں اپنی برائی برائی نے لگتی۔ ہم اپنے کردار کو تو صاف سمجھتے ہیں لیکن دوسروں کی کوئی غلطی نظر آئے تو واویلا مچا دیتے ہیں۔ تبھی تو خوشحالی نہیں آتی تبھی تو ہمارے ملک کا زوال آیا ہوا ہے تبھی تو ہمیں ایسے حکمران ملتے ہیں۔
ہم حکمران کو کیسے گالی دے دیتے ہیں جبکہ خود تو چند پیسوں کے لیے اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں ہر طرف دیکھو ہر شخص کرپشن کر رہا ہے۔ دودھ والا پانی ملا کر، دکاندار ترازو میں وزن چھپا کر، کپڑے والا جھوٹ بول کر اور گوشت والا مردہ اور حرام گوشت بیچ کر اپنے کردار کو میلا کرتا ہے۔ مجھے بہت دکھ ہوتا ہے کہ لوگ کیسے دنیاوی چند سکوں کی خاطر اپنا زمین بیچ دیتے ہیں۔ یہاں ہر چیز فراڈ پر چل رہی ہے۔
ہم نے جس سن رکھا تھا کہ جیسی رعایا ویسے حکمران۔ آج مجھے اس پر یقین ہو گیا ہے۔ کامیاب قوم حکمران سے نہیں بلکہ مثبت رعایا سے بنتی ہے۔ اب غور کریں کہ ہر برا کام ہمارے ملک سے ملے گا اور ہر کام کو ہم بریکنگ نیوز بنا کر اتنا وائرل کر دیتے ہیں قہوہ برای کم اور “پاکستانیوں کا ٹیلنٹ” زیادہ لگتا ہے۔
ملک سے یہ چھوٹی چھوٹی برائی ختم ہوں تو آپ یقین جانیں کہ حکمرانوں کی مجال ہے کہ وہ کوئی غلط کام کر سکیں۔ ان کو اپنی عوام کا ڈر رہے گا کیوں وہ عوام کے جواب دے ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیں خود کو بدلنا ہوگا خود کہ کردار کو صاف رکھنا ہوگا اپنے ضمیر کو محفوظ رکھنا ہوگا طبی ایک بہتر قوم بنتی ہے۔
اسامہ تبسم ۔