
- تحریر: افراز رشید
وزیر اعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر فاروق حیدر صاحب کا تازہ ترین بیان جس میں فاروق صاحب خود کو آزادکشمیر کا آخری وزیر اعظم کہہ رہے ہیں۔ کشمیر میں بننے والی تحریک آزادی کو جس طرح میڈیا پر پیش کیا گیا اور پھر اچانک سے ایک سناٹا۔ اگر اس کو کسی حد تک ایک سوچا سمجھا منصوبہ کہا جائے تو شائد بے جا نہ ہو گا۔
ہندوستانی میڈیا کی پاکستان دشمن پالیسی، پاکستانی میڈیا کی ہندوستان دشمن پالیسی۔ کرتارپور میں محبت اور انسانیت کا پیغام۔ تقسیم کشمیر کے دن جمیعت کا اسلام آباد دھرنہ، مظفر آباد میں تمام قوم پرستوں کی آزادی کی آواز کو طاقت کے استعمال سے کچلنا، وزیر اعظم پاکستان کا UNO میں تقریری سیشن، وزیر اعظم آزاد کشمیر کا رونا دھونا، پارلیمنٹ میں کشمیریوں کی آواز بن کر سب کی ہمدردیاں حاصل کرنا اور پھر خود کو آخری وزیر اعظم کہہ دینا۔ اس سب کو 5 اگست سے شروع کر کہ آج تک کے واقعات کے ساتھ اگر جوڑا جائے تو بہت کچھ واضح ہو سکتا ہے۔
میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ہم کشمیر کو کھو چکے ہیں۔ ایسی ہوا بنائی جا رہی ہے جس میں مسلہ کشمیر کا واحد حل تقسیم ہے۔ پھر ریاست کے وزیر اعظم سے رونے پیٹنےاور بے بسی کے عالم میں خود کو آخری وزیر اعظم کہلوانے کا حقیقی مقصد حب الوطن کشمیریوں کے خلاف پروپیگینڈے کو چیک کرنا ہو سکتا ہے کہ آیا سازش کس حد کامیاب ہوئی ہے جس پر عام کشمیری سر جھکا کر کہہ رہا ہے کہ ہائے کشمیر تیرا نصیب۔ خاص کر قوم پرستوں کے ردعمل کو دیکھنا اس خبر کا حقیقی مقصد ہو سکتا ہے۔ میری دھرتی تقسیم ہو گئی جیسے جملے بتا رہے ہیں کہ دشمن کے تیر درست نشانے پر لگ رہے ہیں۔
ہمارے ہاں اکثر و بیشتر جب پرندوں کو گھر لایا جاتا ہے تو دو کام ترجیحی بنیادوں پر کئے جاتے ہیں ۔پروں کا کاٹنا اور پنجرے میں بند کر دینا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پر بھی نکل آتے ہیں اور پنجرہ بھی کھل جاتا ہے لیکن پرندہ طویل قید کی وجہ سے آزادی کا احساس بھول چکا ہوتا ہے۔وہ آزاد ہونے کے باوجود قید رہتا ہے ۔ ایسی ہی کہانی ہماری بھی ہے۔ ہم آزادی کی فضا اور احساس دونوں کھو چکے ہیں۔وقت کی اہم ترین ضرورتوں میں سے ایک ضرورت یہ ہے کہ اپنے اعصاب پر قابو پایا جائے اور اس ہوا کا مقابلہ تقسیم نا منظور کی صورت میں کیا جائے۔
کشمیر کی تقسیم
نامنظور نامنظور
[…] مزید پرھیے […]