پلندری پوسٹ گریجویٹ ڈگری کالج

گورنمنٹ بوائز ڈگری کالج پلندری میں پڑھانے والے چند پروفیسر حضرات کے تبادلوں کو لے کر گزشتہ کچھ روز سے سوشل میڈیا،پلندری اور گردونواح میں کافی چہمگویاں ہو رہی ہیں۔ کچھ لوگ ان تبادلوں کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کرتے دیکھاہی دے رہے ہیں اور یقینا اس طرح کی باتیں انہی لوگوں اور ان کے حامی کچھ ایسے عناصر جن کا کام تنقیدی اور اصلاحی عمل کو روکنا ہے کی طرف سے سامنے آ رہی ہیں۔اس حوالے سے بہت سی چیزیں اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جو قابل ذکر ہیں اور جن پر بات کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ تعلیم ادارے کے اندر نظم و ضبط کو یقینی بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے مگر ایکٹا کے دو گروپوں کی آپسی ان بن اور لڑائی، ذاتی پسند ناپسند اور ذاتی انا کی وجہ سے تعلیمی ادارے کا نظم و ضبط تو متاثر ہو رہا ہے ساتھ ہی ساتھ اساتذہ کی طرف سے طلباء کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا ذیادہ تشویشناک ہے۔

ماڈل کلاسز کے آغاز کے ساتھ ہی پلندری کے اندر عام عوام کی طرف سے زبردست ریسپانس ملنا شروع ہوا۔ والدین اسے اپنے بچوں کی پڑھائی اور بہتر مستقبل کے لیے امید کی کرن کے طور پر دیکھ رہے تھے مگر وہ اس بات سے ناآشنا تھے کہ آنا والا وقت اپنے ساتھ بہت ہی خوفناک حقیقت اور صورتحال کو جنم دے گا۔ ادارے کے اندر موجود پروفیسر حضرات کی آپسی سیاست اس سب صورت حال کو کس طرف لے جائے گی کسی کو اس بات کا ادراک نہ تھا۔جیسا کہ داخلے کے وقت تو سبھی طلباء کو برابری کی بنیاد پر توجہ کے ساتھ علم و تدریس کے عمل سے آراستہ کرنے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے مگر جب کلاسز کا آغاز کیا جاتا ہے تو نمبرات کی بنیاد پر کچھ طلباء کو ادارے کی پی آر کے لیے زیادہ توجہ ملنا شروع ہو جاتی ہے۔ اصول تو یہ ہے کہ تمام طلباء کو ایک ہی طرز اور ایک ہی رویے سے پڑھایا جائے مگر یہاں حالات یکسر مختلف ہیں۔اس بات کی تصدیق ادارے کے اندر موجود طلباء نے خود کی ہے اور وہ اس بات اور ایڈمنسٹریشن کے اس رویے سے نالاں ہیں مگر وہ بے بس ہیں اور ہمارا گھریلو ماحول ایسا ہے کہ یہاں اپنے بچوں کی بات پر کم توجہ دی جاتی ہے اور سنی ان سنی کر دی جاتی ہے۔اگر کوئی طالبعلم یہ شکوہ کرے کہ اسے اس توجہ کے ساتھ اور اس شفقت کے ساتھ تعلیم نہیں دی جا رہی جو باقی کے طلباء یعنی بہتر نمبرات والے کو دی جا رہی ہے تو شکوہ اصولا درست ہے۔اور اگر والدین میں سے کوئی ایسا مطالبہ کرے تو انہیں بھی ایسے ہی تال مٹول کر کے سائیڈ لائن کرا دیا جاتا ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہی اساتذہ اپنی فیس
سیونگ کے لیے ادارے میں موجود طلباء کا سہارا لیتے ہیں اور سوشل میڈیا اور باقی پلیٹ فارمز پر ان کے ذریعے جھوٹی کیمپینز چلوائی جاتی ہیں۔اس کی سب سے بڑی مثال حال ہی میں ماڈل کلاسز کے طلباء کے امتحانی نتائج کے حوالے سے دیکھنے میں آئی ہے۔ جیسے ہی تبادلوں کی بات چلی اور ان سازشی عناصر کو یہ محسوس ہونے لگا کہ اب ان کے جانے کا وقت آ گیا ہے تو انہوں نے خود پس پردہ رہ کر طلباء کو آگے کیا اور جھوٹ سے بھرپور رزلٹ لوگوں تک پہنچانا شروع کیا۔اس حوالے یہ گزشتہ چار سالوں کے بورڈ کے امتحانی نتائج جو کہ گیزٹ کی شکل میں موجود ہیں وہ اس تحریر کے ساتھ شائع کیے ہیں اور وہ نوٹیفکیشن بھی ساتھ میں شائع ہے جس پر ان کا یہ دعوی ہے کہ نتائج سو فیصد ہیں اور اس پر پرنسپل ادارہ کے دستخط موجود ہیں جو کہ سراسر غلط بیانی اور جھوٹ ہے۔ ماڈل ون اور ماڈل ٹو کے طلباء کو اگر ساتھ ملا کر پچھلے چار سال کے گیزٹ پر ایک نگاہ ڈالیں اور صرف پری-میڈیکل، پری-انجینئیرنگ اور جنرل سائنس کے طلباء کا رزلٹ دیکھیں تو کچھ یوں بنتا ہے۔

پلندری پوسٹ گریجویٹ ڈگری کالج

2016 میں 41 طلباء نے امتحان دیا اور 33 پاس ہوئے اور پاس ہونے کی اوسط 80% ہے۔ 2017 میں 101 طلباء نے امتحان دیا جبکہ 88 پاس ہوئے اور اس حساب سے 87% طلباء کامیاب ہوئے۔ 2018 میں 100 طلباء نے امتحان دیا اور 81 پاس ہوئے اور اس حساب سے 81% طلباء پاس ہوئے۔ 2019 میں کہانی یکسر مختلف ہے۔ 94 طلباء امتحانات میں شامل ہوئے اور 70 پاس ہوئے جبکہ اس سال 74% طلباء کامیابی حاصل کر سکے۔ ایک بات مزید واضح کرتا چلوں کہ 2017 میں اے پلس گریڈ میں 20سٹوڈنٹ ہیں اور اے گریڈ میں 30 جبکہ پرنسپل صاحب کے دستخط سے جاری گارگردگی روپورٹ میں 25 اور 39 لکھے ہوئے ہیں جو ان کی مبالغہ آرائی اور جان بوجھ کر جھوٹ بولنے کی واضح مثال ہے۔یہ تمام چیزیں ریکارڈ پر موجود ہیں اور گیزٹ کی تصاویر ساتھ شائع کی گئی ہیں تاکہ کوئی اپنی طرف سے تسلی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ ۔اس کے علاوہ بہت سے طلباء کا میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں میں میرٹ پر داخلے کے حوالے سے بتایا گیا ہے حالانکہ ان طلباء کے رزلٹ کارڈز دیکھیں تو ان پر صاف لکھا ہے کہ انہوں نے امپرو کر کے بطور پرائیوٹ سٹوڈنٹ اتنے نمبرات حاصل کیے ہیں جو میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں میں میرٹ پر داخل کے لیے ضرورت تھے۔ 2016 میں کوئی سٹوڈنٹ میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل نہیں کر سکا بلکہ جن طلبہ و طالبات کا سیشن 2016تھا وہ 2017 میں اپنا رزلٹ امپرو کر کے داخلہ حاصل کیا اسی طرح 2017 والے 2018اور 2019 میں اپنا رزلٹ امپرو کرنے کے بعد پرائیویٹ اکیڈمییز میں کوچنک لینے کے بعد داخلہ کے اہل ہو سکے جس میں انٹری ٹیسٹ اکیڈمیز کا زیادہ کردار ہے۔ان میں سے کچھ بچے جو میڈیکل کالج میں ہیں وہ سیلف فنانس پر داخلہ لیا ہوا جس کا کریڈیٹ ادارے کو نہیں جاتا بلکہ وہ اپنے والدین کی مالی پوزیشن بہتر ہونے کی وجہ سے میڈیکل کالج میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔کتنے ہی ایسے طالبعلم ہیں جو میرپور یونیورسٹی میں سیلف فائنس پر انجینئیرنگ کر رہے ہیں جبکہ یہاں یہ ڈھنڈھورا پیٹا جا رہا ہے کہ ہمارے طلباء میرٹ پر پڑھ رہے ہیں۔یہ تو ان والدین سے پوچھنا چاہیے جو حقیقت میں سمسٹر کی لاکھ، لاکھ فیس دیتے ہیں۔ ایک بات یہ ہے کہ کالج کے اندر جو بھی طلب علم داخل ہوتا ہے اس کو میرٹ پر داخلہ دیا جاتا ہے لیکن سال اول میں طلبہ کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن سال دوم میں بہت کم رہ جاتے ہیں پھر بھی کوئی رزلٹ 100فیصد نہیں ہوتا۔ چلیں کالج انتظامیہ کی بات مان لیتے ہیں کے بعض بچے رٹہ لگا کر اچھے نمبر لے لیتے ہیں لیکن فرسٹ ائیر میں وہ پرفارم نہیں کر سکتے لیکن چھانٹی کر کے جو سیکنڈ ائیر میں آتے ہیں وہ کیوں فیل ہوتے ہیں۔ دوسری سب سے اہم بات جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے آرٹس کے طالب علم ان کا کیا قصور ہے ان پر اس طرح توجہ کیوں نہیں دی جاتی ان کے رزلٹ کی خرابی کی کیا وجہ ہے کیا پرنسپل ادارہ ہذا صرف ماڈل کلاس کے ہیں ان پر توجہ دینا کس کی ذمہ داری ہے اس کا تعین کس طرح ہو گا ماڈل کلاس میں کوئی بھی بچہ ایسا نہیں ہے جس کے میٹرک کے نمبرات 60فیصد سے کم ہوں اس کو داخلہ دیا گیا ہو پھر بھی اس طرح کا رزلٹ کیوں حاصل نہیں کیا جا سکا۔ کالج کے اندر 2016 ،2017اور 2018 میں بی اے، بی ایس سی کی کلاسز تھیں ان کے نتائج گارگردگی روپورٹ میں شامل نہیں کیے گئےاس کی کیا وجوہات ہیں۔اکنامکس سال اول میں تین پوزیشن کا ذکر ہے جبکہ سال اول میں پوزیشن کا یونیورسٹی کی طرف سے اعلان نہیں کیا جاتا۔ پوزیشن ہمیشہ فائنل رزلٹ پر ہوتی ہیں۔بی ایس کامرس پونچھ یونیورسٹی کے زیر اہتمام صرف پوسٹ گریجویٹ کالج پلندری میں ہے اس لیے جو بھی پوزیشن ہو گی ادارہ ہذا کی ہو گی کیوں کہ اس میں ادارے کا مقابلہ باقی کسی ادارہ سے نہیں ہے۔اساتذہ کے تبادلوں کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش میں اس طرح کے واقعات دونوں گروپوں کی طرف سے دیکھنے کو ملتے ہیں۔حال ہی میں تبادلوں کو لے کر رونما ہونے والے واقعات میں سب سی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ عوام الناس میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ عمل خالصتا حکومتی سازش ہے۔ چونکہ ہمارے عوام کے اندر چیزوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے اور حقیقت کو پرکھنے کے بجائے سنی سنائی پر دھیان دینے کا رجحان ہے اس لیے سب لوگ یہ بات بھول گئے ہیں کہ دونوں گروپوں میں موجود جن اساتذہ کا تبادلہ ہوا ہے ان کی اکثریت حکومتی نواز ہے۔ یا پھر آپ یوں کہہ لیں کہ جن اساتذہ کا تبادلہ ہوا ہے وہ تو خود حکومتی جماعت کو ووٹ دینے والے ہیں اور یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔
اسد سلیم ، چوہدری شفیق اور طاہر الطاف نے گزشتہ

الیکشن میں ن لیگ کو سپورٹ کیا ، جبکہ آنے والوں میں رازاق صاحب کا تعلق حلقہ نمبر 6 سے ہے محمود صاحب مولانا صاحب کے ووٹر اور سپورٹر ہیں جبکہ حمید صاحب کا تبادلہ اسی گورنمنٹ کے دور میں انہی پرنسپل صاحب کی انکوائری کی بنیاد پر ہوا تھا
۔ایک بات اور جو یہ کہتے ہیں کہ آزاد کشمیر کا ٹاپ گورنمنٹ کالج ہے اس کے ثبوت بھی ساتھ شائع کیے گئے ہیں۔ماڈل سائنس کالج مظفرآباد ، روالاکوٹ ، ان کے طلبہ کی تعداد اور ان کے نتائج یہ جھوٹ بھی واضح ہے۔ جیسا کہ ڈگری کالج راولاکوٹ کے 2019 کا سالانہ رزلٹ دیکھیں تو 173 طلباء امتحان میں شامل ہوئے اور 169 پاس ہوئے اور یوں کل 97% طلباء نے کامیابی حاصل کی ہے۔ جبکہ گورنمنٹ ماڈل سائنس کالج مظفرآباد میں 884 طلباء نے امتحان دیا جبکہ 823 پاس ہوئے اور یوں کل 93% طلباء پاس ہوئے۔اب یہاں امتحان میں شامل ہونے والے طلباء 884 ہیں اور اتنے طلباء کا کامیابی حاصل کرنا یقینا قابل تحسین ہے۔اس سب کو دیکھتے ہوئے کوئی اگر اپنے ضلعی کالج میں یہ جھوٹ پھیلائے کہ ہمارا کالج نتائج کے حساب سے کشمیر کا سب سے بڑا کالج ہے تو یہ زیادتگی ہو گی۔
انہوں نے یہ غلط انفارمیشن چند مخصوص بچوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر شئیر کرائی ہے۔ حقیقت کیا ہے وہ یہاں بیان کی گئی ہے۔
ان سب باتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے فورا سے معصوم اور بھولے بھالے طلباء کا سہارا لیا گیا ہے اور یہ کیمپین چلائی گئی کہ یہ ادارے کے خلاف باقی سب اداروں اور باقی ضلعی انتظامیہ کی بھونڈی سازش ہے اور مخالف سیاسی جماعتوں کے لوگ یعنی پی ٹی آئی اور پی پی پی کے کارکنوں نے اسے حکومتی مداخلت قرار دیا ہے جبکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ خالص حکومتی نواز لوگ ہیں۔ اب باقی جماعتوں کے لوگوں کے لیے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ” نہ پانچ میں نہ پچاس میں اور کتا کان لے گیا ہے اس کے پیچھے بھاگ پڑو۔۔”
اس سب صورتحال کو دیکھ کر اس عنوان پر مضمون لکھنا اور سب چیزیں کے بارے میں حقائق سے عوام الناس کو آگاہ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ طلباء ہمارا مستقبل ہیں۔ بجائے اس کہ انہیں اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ مستقبل میں مختلف اداروں میں نمایاں کارکردگی کے لیے تیار کیا جائے یہاں انہیں سازشی عناصر کے ہاتھوں تباہ برباد کیا جا رہا ہے۔اس کا نقصان صرف اور صرف طلباء، ان کے والدین اور مستقبل میں ریاست کو ہو گا۔ ان سب باتوں کے بعد یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ لوگ سچ اور جھوٹ میں فرق کریں اور فل فور وزارت تعلیم حرکت میں آئے تاکہ طلباء کا مستقبل جو کہ ابھی کے حالات کے مطابق داو پر ہے اس مزید تباہی سے بچایا جا سکے۔ عوام علاقہ سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس بات کو سنجیدگی سے لیں اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ہم آج کے جدید دور میں آگے جانے کے بجائے پیچھے بند گلی میں دھکیل دیے جائیں گے۔جن اساتذہ کا تبادلہ ہوا ہے انہوں نے حکومتی فیصلے اور تعلیمی پالیسی کے باعث دوسرے ادارے میں جانا ہی ہے اس میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے اور اگر کوئی “عدالتی سٹے” اور “نوٹیفیکیشن منسوخی” میں فرق نہیں کر سکتا تو یہ اس کی بدقسمتی ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ایک ایسے شاہکار ماحول سے لوگوں کو آشنا کرایا جائے جہاں آنے والے لوگ آنے والے وقت میں ان سب چیزوں سے بالاتر ہو کر خالص جذبے کے ساتھ تعلیم و تدریس کا عمل آگے بڑھائیں۔ہماری تمنا ہے کہ کوئی ایسا استاد آئے جو اپنے طالبعلموں کو “کینسل” اور “عدالتی سٹے” میں فرق سے بھی آگاہ کرے تاکہ انہیں کسی مقام پر اس بحث کے باعث شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔۔۔

تمام ثبوت اس مضمون کے ساتھ شائع کیے گئے ہیں تا کہ سچ اور جھوٹ میں فرق واضح کیا جا سکے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here