
تحریر: عرفان بلوچ
لنگر اور سبیلیں سلطنت اور بادشاہت کی نشانیاں ہیں جب کسی سلطنت کے تمام وسائل بشمول عوام بادشاہ کیلئے وقف تھے. اس دور میں عوام کے حقوق نہیں تھے سوائے زندہ رہنے کے تا کہ بوقت ضرورت بادشاہ سلامت پر قربان کیے جا سکیں. اس دور میں لنگر کی دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ عوام کے اندر احساس کمتری موجود رہے اور وہ خود کو رعایا مان کر جیئیں. جنہیں ریاست کے اندر رہنے کی رعایت دی گئی ہے. یہ بادشاہت دور میں عوام کو نفسیاتی طور پر مفلوج کرنے کا بہترین طریقہ تھا.
ہمارے ہاں آج بھی تعلیم نصاب میں مختلف بادشاہوں کے لنگر کے قصے شامل ہیں جن کو کمال خوبصورتی سے لکھا گیا ہے. ان لنگر کی ایسی ایسی فیوض و برکات بیان کی گئی ہیں کہ جس کو پڑھنے کے بعد ایک بچہ نفسیاتی طور پر خود کو رعایا یا اس لنگر کا بھکاری سمجھنے میں کار ثواب سمجھتا ہے. کیونکہ لکھنے والوں نے یہاں تک لکھا ہوتا ہے کہ اس لنگر سے لیا گیا ایک نوالہ فلاں فلاں فلاں سے نجات دلاتا ہے. ہمارے معاشرے میں خیرات کا کنسیپٹ بھی شاید اسی بادشاہی لنگروں کی فیوض و برکات سے متاثر ہو کر رائج ہوا ہو. خیر یہ تو بادشاہی دور تھا جس میں رعایا کے حقوق اور جانور کے حقوق تقریباً برابر تھے.
پھر وقت بدلا، جمہوریت آئی. حکمران کی جگہ آئین ران آئے.( بدقسمتی سے پاکستان میں ابھی تک لفظ حکمران ہی مستعمل ہے جو کہ اس بات کی گواہی ہے کہ یہاں ابھی بادشاہت قائم ہے) جدید فلاحی ریاستیں قائم ہوئیں. لوگوں کے حقوق مقرر ہوئے. صحت، تعلیم، روزگار، تحفظ اور انصاف ریاست کی ذمہ داری قرار پایا. ان کے حقوق کے تحفظ اور نظم و ضبط کیلئے قوانین وضع کیے گئے انصاف کیلئے عدالتیں بنائی گئی تحفظ کیلئے سیکورٹی ادارے بنائے صحت کے ہسپتال بنے تعلیم و تربیت کیلئے سکول کالج یونیورسٹیاں بنائی گئی اور بہترین روزگار کیلئے منصوبہ بندی کی گئی کارخانے لگائے گئے. یعنی لنگر سے روزگار کی طرف سفر طے ہوا مطلب رعایا سے عوام کی طرف سفر شروع ہوا اور لوگوں کو بھکاری کی بجائے ایک مفید شہری بنایا گیا. انفرادی سطح پر عوام کو خودمختاری اور آذادی دی گئی. اس سفر میں یورپ پوری دنیا سے آگے نکل گیا. وجہ صرف یہ تھی کہ انہوں نے عوام کو فوقیت دی ریاست اور اس کی پوری مشینری کو عوام کیلئے وقف کیا. یورپ کی ترقی کا راز بھی یہی ہے کہ انہوں نے ریاست کے حقوق کو نہیں بلکہ عوام کے حقوق کو محور و مرکز بنایا. جبکہ ہمارے ہاں ابھی تک ریاست یعنی مخصوص اداروں کے حقوق سب پر مقدم ہیں جس پہ اس ملک کی زمین اور اس کی عوام کو کئی بار قربان کیا گیا. اور ابھی تک ہو رہے ہیں.
تو بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں ابھی تک عوام کو رعایا بنانے کیلئے مختلف ہتھکنڈوں کا استعمال جاری ہے. کبھی مذہب کے نام پر، کبھی کسی خاص خطہ ارضی کے نام پر، کبھی اداروں کی حرمت کے نام پر، کبھی مقدسات کے احترام میں، کبھی ریاست مدینہ کے نام پر،کبھی خلافت کے نام پر، کبھی تقریریں کر کے کبھی لنگر بانٹ کے.
اوپر بیان کی گئی ساری چیزیں ایک انسان پر قربان ہونی چاہیے تھیں لیکن یہاں انسان ان سب پر قربان کیے جاتے ہیں. بادشاہت دور میں ریاست یعنی بادشاہ پر عوام کی قربانی دی جاتی تھی اور یہ بات رعایا کیلئے باعثِ فخر تھی عوام کے ساتھ ساتھ ریاست کا ہر ادارہ خود ریاست بھی بادشاہ پر قربان کر دی جاتی تھی ہمارے ہاں آج کی بہت ساری چیزوں پر خود کو قربان کرنا باعثِ فخر سمجھا جاتا ہے. زمانہ بدل گیا لیکن ہم نے دور جہالت کی روایتوں کو گلے سے لگایا ہوا ہے. جبکہ بادشاہت کے برعکس جمہوری دور میں انسان کو مرکزیت حاصل ہوئی، ریاست کے نہیں عوام کے حقوق مقرر ہوئے عوام کی بھلائی اور اس کے بنیادی حقوق کیلئے ریاست کے قوانین تک قربان کر دیے جاتے ہیں جبکہ یہاں الٹی گنگا بہہ رہی جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے. یہاں ریاست کا محور عوام نہیں بلکہ عوام کا محور ریاست ہے.
جدید دور میں ریاست کا کام روزگار تعلیم اور صحت دینا ہے. جبکہ لنگر بانٹنے کا کام خانقاہوں، درگاہوں اور درباروں کا ہے. ترقی یافتہ معاشروں میں بھکاریوں کو ملک کو قوم پہ بوجھ سمجھا جاتا ہے اور انہیں کار آمد شہری بنانے کیلئے روزگار مہیا کیا جاتا ہے جبکہ یہاں روزگار چھین کر قوم کو بھکاری بنانے میں ہماری پوری حکومتی مشینری دن رات کام کر رہی ہے.اور پاکستانی عوام بھیک ملنے پر خوش ہو رہی ہے. کوئی بھی بندہ ریاست سے اس کی بنیادی ذمہ داری یعنی تعلیم صحت روزگار تحفظ اور انصاف کے بارے سوال نہیں کر رہا. اس کا مطلب ہے کہ جو لوگ جمہوری دور میں بھی بادشاہت کو قائم و دائم رکھنا چاہتے ہیں اور اس ہجوم کو عوام کی بجائے رعایا بنانا چاہتے ہیں وہ اپنے اپنے مقصد میں ایک حد تک کامیاب ہو رہے ہیں. لیکن یہ معاشرہ ناکام ہو رہا ہے.
عرفان بلوچ
Nice